سوڈان (انٹر نیشنل ڈیسک )شمالی دارفور کے علاقے تاویلا میں قائم امدادی کیمپوں میں سوڈان کے شہر الفاشر سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کی حالت انتہائی خراب بتائی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی امدادی تنظیم ناروے ریفیوجی کونسل (NRC) کے مطابق بعض بچے اتنے کمزور اور غذائی قلت کے شکار ہیں کہ علاج کے باوجود ان کی جان بچانا ممکن نہیں۔تنظیم کی نمائندہ میتھلڈ وو نے بتایا کہ بہت سے افراد شدید پیاس اور تھکن کے باعث بولنے تک کے قابل نہیں رہتے۔ انہوں نے کہا،”لوگ صحرائی راستوں سے گزر کر تاویلا پہنچتے ہیں، کئی صرف جانوروں کے چارے اور بارش کے پانی پر زندہ تھے۔ امدادی وسائل اتنے محدود ہیں کہ تمام بچوں کو بچانا ممکن نہیں ہوگا۔”الفاشر — جو دارفور کا سب سے بڑا شہر ہے — دو ہفتے قبل نیم فوجی ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک تقریباً 10 ہزار افراد تاویلا پہنچ چکے ہیں، جب کہ اس سے قبل ہی وہاں چھ لاکھ سے زائد بے گھر افراد مقیم تھے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق، 26 اکتوبر سے اب تک 82 ہزار سے زائد افراد الفاشر اور اس کے نواح سے نقل مکانی کر چکے ہیں، جب کہ دو لاکھ افراد اب بھی شہر میں پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔الفاشر، جو سوڈانی فوج کا آخری مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا، 18 ماہ طویل محاصرے کے بعد RSF کے قبضے میں آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، قبضے کے بعد اجتماعی قتل عام اور جبری گمشدگیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
RSF نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عوام کو انسانی امداد تک رسائی دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ناروے ریفیوجی کونسل نے تاویلا پہنچنے والے متاثرین کو "انتہائی پریشان کن حالت” میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھاری ہجوم، صابن، پانی اور بنیادی اشیاء کی قلت کے باعث لوگوں کی زندگیاں بچانا مشکل ہو گیا ہے۔جمعرات کے روز RSF نے جنگ بندی کی پیشکش منظور کر لی، تاہم سوڈانی فوج نے اس پر کوئی فوری ردعمل نہیں دیا۔اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے الفاشر کی صورتِ حال پر غور کے لیے ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔اور اپریل 2023 میں سوڈانی فوج اور RSF کے درمیان شروع ہونے والی جنگ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس میں دس ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ قحط نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔



