غزہ (انٹرنیشنل ڈیسک )میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نفسیاتی بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں ماہرین کے مطابق شہری "ذہنی دباؤ کے آتش فشاں” سے گزر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ جنگ بندی کے بعد سے ہزاروں افراد ذہنی علاج کے لیے اسپتالوں اور کلینکس کا رخ کر رہے ہیں۔غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران اسرائیلی بمباری اور فوجی کارروائیوں میں اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ لاکھوں افراد بے گھر اور خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں۔غزہ سٹی مینٹل ہیلتھ اسپتال کے سربراہ عبداللہ الجمال نے بتایا کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد “ایسا لگا جیسے مریضوں کا لاوا پھٹ پڑا ہو۔ لوگ اب ذہنی صحت کے لیے مدد لینے میں ہچکچاتے نہیں۔” ان کے مطابق مریضوں کی تعداد جنگ سے پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسپتال کی عمارت کو نقصان پہنچنے کے باعث وہ ایک عارضی کلینک سے خدمات فراہم کر رہے ہیں، جہاں صرف ایک کمرہ دستیاب ہے۔ “یہ صورتحال مریضوں کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے، لیکن ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ متبادل طریقے سے مدد فراہم کی جائے۔” فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے ماہرین کے مطابق بچوں میں ڈراؤنے خواب، بستر پر پیشاب کرنا، توجہ مرکوز نہ کر پانا اور شدید خوف جیسے مسائل عام ہو چکے ہیں۔ تنظیم کی ماہر نفسیات نوین عبدالہادی کا کہنا ہے کہ “غزہ کے بچے خوراک، پانی، رہائش اور لباس کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ ہم ان کے لیے کھیلوں اور کہانیوں جیسی سرگرمیاں کروا رہے ہیں تاکہ ان کا ذہنی بوجھ کم ہو سکے۔”غزہ میں جنگ بندی 10 اکتوبر سے نافذ ہے، تاہم وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ لڑائی 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس کے حملے میں تقریباً 1,200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔



