کبھی نقصان میں چلنے والا شعبہ سمجھا جانے والا گوگل کلاؤڈ اب ایلفابیٹ (Alphabet) کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی کاروباری اکائیوں میں شامل ہو گیا ہے، جس کی بنیاد مصنوعی ذہانت (AI) پر بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری، جدید ڈیٹا سینٹرز، خصوصی چپس اور نیٹ ورکنگ ٹیکنالوجی پر رکھی گئی ہے۔ایلفابیٹ نے بدھ کو اعلان کیا کہ گوگل کلاؤڈ کی آمدنی رواں سال کی تیسری سہ ماہی میں 15 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 34 فیصد اضافہ ہے۔ اس نمو کی بڑی وجہ AI انفراسٹرکچر اور گوگل کے اپنے "جیمنی” (Gemini) ماڈل سمیت متعلقہ سروسز کی بڑھتی ہوئی مانگ ہے۔گوگل کلاؤڈ اب ایلفابیٹ کے لیے یوٹیوب کے بعد دوسرا بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، جو سرچ ایڈورٹائزنگ کے بعد کمپنی کی سب سے بڑی آمدنی کا ذریعہ ہے۔
ایلفابیٹ کے سی ای او سندر پچائی نے کہا کہ "گوگل کلاؤڈ کمپنی کے لیے سب سے اہم ترجیحات میں شامل ہے اور آنے والے برسوں میں یہ ایلفابیٹ کی مرکزی قوت کے طور پر مزید نمایاں کردار ادا کرے گا۔”
گوگل کلاؤڈ کی تیز رفتار ترقی کا بڑا سہرا اس کے سربراہ تھامس کوریان کے سر جاتا ہے، جنہوں نے 2018 میں اوریکل سے گوگل کا رخ کیا۔ ان کی قیادت میں گوگل کلاؤڈ کا مارکیٹ شیئر 7 فیصد سے بڑھ کر 13 فیصد تک جا پہنچا ہے۔2019 میں جب پچائی نے لیری پیج کی جگہ سی ای او کا عہدہ سنبھالا، تو انہوں نے گوگل کلاؤڈ اور یوٹیوب کو کمپنی کے دو بڑے ستون قرار دیا جو سرچ ایڈورٹائزنگ کے انحصار سے نکلنے میں مدد دیں گے۔اگرچہ گوگل کلاؤڈ نے 2018 سے 2022 تک بھاری نقصانات اٹھائے، مگر 2023 میں اس نے پہلا منافع ریکارڈ کیا۔ اب AI کے میدان میں تیزی سے ترقی کے باعث کمپنی مائیکروسافٹ اور ایمیزون جیسے حریفوں سے فاصلہ کم کرنے میں مصروف ہے۔فی الحال ایمیزون کے پاس 30 فیصد اور مائیکروسافٹ کے پاس 20 فیصد مارکیٹ شیئر ہے، جبکہ گوگل کلاؤڈ تیزی سے اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے۔تھامس کوریان نے کمپنی میں ایک بڑی ثقافتی تبدیلی لاتے ہوئے غیر رسمی گوگل ماحول کو کارکردگی، مالی نظم و ضبط اور صارف مرکوز حکمتِ عملی میں تبدیل کیا۔ انہوں نے اخراجات میں کمی کے لیے سستے علاقوں جیسے نارتھ کیرولائنا اور پولینڈ میں دفاتر قائم کیے اور کمپنی کے اندرونی معاہدوں کا ازسرِ نو جائزہ لیا۔گوگل کلاؤڈ نے اپنی سیلز حکمتِ عملی کو بھی ازسرِ نو ترتیب دیا، جہاں اب جغرافیے کی بجائے انڈسٹری بیسڈ کسٹمر ٹارگٹنگ کی جاتی ہے۔



